ولیویا کے تین لڑکوں نے سپائیڈر مین بننے کیلئے خود کو کالی بیوہ مکڑی سے کٹوا لیا جس کی وجہ سے انہیں
ہسپتال جانا پڑا۔ اگرچہ سپائیڈر مین ایک دلچسپ مووی ہے لیکن اس طرح کے کردار بچوں کیلئے انتہائی خطرناک ہو
سکتے ہیں۔موجودہ واقعہ ایسے کرداروں پر بننے ولی موویز پر ایک سوالیہ نشان ہےجسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
بولیویا کے تین لڑکوں نے فلم کی نقل میں خود کو سپائیڈر میں بنانے کے لیے دنیا کی خطرناک ترین کالی مکڑی
سے کٹؤا لیا۔بولیویا کے اخبار ایل دربر کے مطابق تینوں لڑکے سگے بھائی ہیں اور اُن کا تعلق پوٹوسی سے ہے۔ اُن
کی عمریں 8، 10 اور 12 سال ہیں
ان تینوں بچوں نے کالی بیوہ مکڑی کو اپنی جلد پر بٹھایا اور اسے لکڑی کی چھڑی سے کچوکے لگاتے رہے تاکہ وہ اُن کی جلد پر کاٹ لے۔
بیوہ مکڑی کو دیکھا۔
انہوں نے اس خطرناک مکڑی سے فاصلہ رکھنے کےبجاے اسے سپائیڈر مین بننے کا موقع جاناکیونکہ تینوں بھائیوں کو یاد آ گیا تھا کہ پیٹر پارکر کس طرح سے سپائیڈر مین بنا تھا۔ انہوں نے اُس طریقے کو خود پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلے سب سے بڑا بھائی مکڑی کے پاس گیا اور اسے پکڑ کر چھیڑا تاکہ وہ اسے کاٹ لے۔ اس کے بعد بڑے بھائی نے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی مکڑی سے کٹوانے میں مدد کی۔
سب سے پہلے سب سے بڑا بھائی مکڑی کے پاس گیا اور اسے پکڑ کر چھیڑا تاکہ وہ اسے کاٹ لے۔ اس کے بعد بڑے بھائی نے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی مکڑی سے کٹوانے میں مدد کی۔
10 منٹ میں مکڑی کے زہر کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ جب لڑکوں کےوالدین وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے بچوں کو درد سے روتا ہوا دیکھا۔ وہ اپنے بچوں کو لے کر مقامی مرکز صحت پر لے گئے جہاں پر ملنے والی ادویات سے ان کی تکلیف میں کمی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بچوں کو قریبی ٹاؤن کے ہسپتال پہنچایا دیا گیا۔ اگلے دن بچوں کی حالت مزید بگڑنے پر انہیں لاپاز کے بچوں کےہسپتال پہنچایاگیا۔
مکڑیوں کے کاٹنے کے باعث بچوں کے پٹھوں میں درد ہو رہا تھااور انہیں پسینہ آرہا تھا اور بخار کے ساتھ شدید کپکپی بھی طاری تھی ۔ڈاکٹروں نے جب تک کالی بیوہ مکڑی کے کاٹے کے علاج کا سیرم بچوں کو نہیں دیا تب تک اُن کی طبعیت شدید خراب رہی۔20 مئی کو تینوں کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔
بولیویا کے وزات صحت میں شعبہ وبائیات کے سربراہ ورجیلیو پریتو نے بتاہا کہ وہ یہ واقعہ صرف اس وجہ سے شیئر کر رہے ہیں تاکہ بچوں کے والدین خبردار ہوجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچے ہر چیز کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فلموں اور خوابوں کو بھی سچ سمجھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment