سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اپنی شش ماہی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جس نے فیس بک سے مواد پر پابندی لگانے کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں دیں۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے دسمبر 2019 میں فیس بک کی جانب سے دنیا بھر میں ان کے پلیٹ فارمز یعنی فیس بک اور انسٹاگرام پر موجود مواد پر پابندی لگانے کی 82615 درخواستیں موصول ہوئیں تھیں۔
موصول ہونے والی درخواستوں میں سے 2900 درخواستوں کے ساتھ سروس سر فہرست 2270 درخواستوں کے ساتھ پاکستان دوسرے نمبر پر اور 2219 درخواستوں کے ساتھ میکسیکو تیسرے نمبر پر رہا۔
مواد پر پابندی کے حوالے سے فیس بک کی جانب سے جاری کردہ وضاحت کے مطابق کہا گیا کہ جب ہم کسی ملک سے موصول ہونے والی درخواست پر کارروائی کرتے ہیں تو وہ مقامی قانون پر مبنی مواد پر پابندی عائد کے بارے میں ہوتا ہے۔
ایسے مواد پر پابندی لگائی جاتی ہے جو اس ملک یا خطے میں غیر قانونی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی مخصوص مواد پر متعدد ممالک میں پابندی ہے تو ہم اپنی رپورٹ میں ہر ملک کی پابندی کو آزادانہ طور پر شمار کرتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں فیس بک اور انسٹاگرام کے مواد کو ہٹانے کے لیے حکومت کی جانب سے 2019 میں سب سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئیں تھیں۔
یاد رہے حکومت سے مراد وہ تمام ادارے ہوتے ہیں جو حکومت پاکستان کے ماتحت کام کرتے ہیں جیسا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی *پی ٹی اے* اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ۔
سنہ 2013 میں پہلی بار حکومت نے فیس بک کی انتظامیہ کو مواد ہٹانے یعنی انھیں حذف کرنے کے لیے درخواستیں بھیجیں اور جولائی سے دسمبر 2013 تک ان درخواستوں کی تعداد 162 تھی۔
اس کے بعد سنہ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 1854، سنہ 2015 میں صرف چھ، سنہ 2016 میں 31 سنہ 2017 میں 478 سنہ 2018 میں 6400 اورجبکہ سنہ 2019 میں یہ تعداد اچانک سے بڑھ کر 8000 تک پہنچ گئی جو کہ اب تک پچھلی حکومتوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہیں۔
فیس بک نے پاکستان کے مقامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کی درخواستوں پر عمل کیا اور کہا کہ ہم نے مواد پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کے کہنے پر ہٹایا
No comments:
Post a Comment